مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اب ایک واضح نسل کشی کی شکل اختیار کرچکی ہے، جہاں ہزاروں بے گناہ شہری، خصوصاً خواتین اور بچے، مسلسل حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ محاصرے اور تباہ کن بمباری نے نہ صرف رہائشی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے بلکہ خوراک، پانی اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات بھی ختم ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں قحط اور بھوک ایک بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہورہی ہے۔
اسرائیل کی یہ جارحانہ پالیسی صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے حالیہ مہینوں میں قطر، ایران، یمن اور لبنان سمیت مختلف اسلامی ممالک کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ قطر پر حملہ، ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش اور یمن میں بارہا فضائی حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ صہیونی حکومت خطے میں اپنی تسلط پسندانہ حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے کسی حد تک جاسکتی ہے۔ ان اقدامات نے اسلامی دنیا میں غم و غصے کو بڑھایا ہے اور حکمران طبقات پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔
اسی پس منظر میں اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے سربراہان مملکت دوحہ میں غیر معمولی اجلاس کررہے ہیں۔ اس اجلاس سے توقع کی جا رہی ہے کہ ماضی کی طرح صرف قراردادوں اور مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔ اجلاس میں اہم آپشنز جیسے اقتصادی و تجارتی تعلقات منقطع کرنا، نارملائزیشن کے عمل کو روکنا، اسرائیل کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی مہم شامل ہیں۔
یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت اب براہ راست اسلامی ممالک تک پہنچ چکی ہے، جس نے عرب اور اسلامی دنیا کو متحد ہو کر ایک واضح اور مؤثر ردعمل دینے کی ضرورت پر مجبور کر دیا ہے۔
دوحہ میں عرب و اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس جاری ہے جہاں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عملی اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں بنیادی توجہ تل ابیب کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے پر مرکوز ہے جبکہ براہ راست فوجی کارروائی کا امکان کم ظاہر کیا جارہا ہے۔
اجلاس میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں جن میں اسرائیلی مظالم کی مذمت، تعلقات کے قیام کے عمل کو روکنا، اسرائیل سے اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کرنا، صہیونی حکومت کے خلاف بین الاقوامی مہم چلانا، تل ابیب کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا، عرب و اسلامی مشترکہ دفاع کو فعال کرنا، قطر کی ثالثی کوششوں کی حمایت اور غزہ کی جنگ بند کرانا شامل ہیں۔
سفارتی اور اقتصادی پابندی
عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق نارملائزیشن کا عمل روکنا اسرائیل کے لیے نہایت مؤثر اور تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی علاقائی حکمت عملی بڑی حد تک اسی عمل پر قائم ہے۔ اسی طرح اقتصادی و تجارتی تعلقات ختم کرنے کے فیصلے کے تحت اسرائیل اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، جس کے نتیجے میں تل ابیب کو اقتصادی محاصرے کا سامنا ہوسکتا ہے، حتی کہ مقبوضہ علاقوں کی جانب جانے والے جہازوں کو روکنا اور اقتصادی معاہدوں کی منسوخی بھی اس میں شامل ہے۔
عالمی سطح پر دباؤ میں اضافہ
مزید برآں، صہیونی حکومت کے خلاف عالمی مہم کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یورپ، افریقہ اور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں سیاسی رہنماؤں اور عوامی حلقوں کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی کھلی مخالفت سامنے آرہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ سمیت اسرائیل کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھانا بھی اہم آپشن قرار دیا جارہا ہے۔
مشترکہ دفاعی نظام کا قیام
عرب و اسلامی مشترکہ دفاع کو فعال کرنے کے آپشن کے تحت اسرائیلی حملوں کے تناظر میں خطے کی فضائی و زمینی سرحدوں کا مشترکہ تحفظ اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے کی تجاویز شامل ہیں۔ عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے بھی کہا ہے کہ عرب و اسلامی ممالک کے پاس اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی اور امداد رسانی
اجلاس میں یہ بھی تجویز دی جارہی ہے کہ غزہ میں قحط اور بھوک کا خاتمہ، رفح کراسنگ کھولنا، انسانی امداد کو بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے وہاں تک پہنچانا اور عرب و اسلامی ممالک کی فوجی نگرانی میں امداد کی فراہمی سمیت تعمیر نو کے اقدامات شروع کیے جائیں۔
فوجی آپریشن
عرب میڈیا کے مطابق اگرچہ آپشنز کی فہرست طویل ہے، لیکن ماہرین کے نزدیک فوجی آپشن کے استعمال کا امکان سب سے کمزور ہے، جبکہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی اقدامات ہی اجلاس کا سب سے نمایاں اور عملی ایجنڈا ہیں۔
آپ کا تبصرہ